Saturday, October 1, 2016

آخر ذمہ داری کس کی ہے؟؟




جون 2012 کا گرم مرطوب دن تھا، دور دور تک کسی ہوٹل یا کھانے پینے کی دکان کا نام و نشان نہیں تھا، صبح 7 بجے سے سکولوں کے Baseline Survey کو نکلی ٹیم بھوک پیاس میں کوئی سائباں یا ہوٹل کی تلاش میں تھی۔ مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو کے ملحقہ علاقے سناواں سے حنا ربانی کھر کے آبائی علاقے "بستی لسوڑی کھر"  کی خستہ حال سڑک تھی۔ بہت تلاش کے بعد ایک چائے کا ہوٹل نظر آیا، ہمارے ساتھ فیلڈ سٹاف میں دو خواتین اور ڈرائیور سمیت تین مرد تھے۔ دیہی علاقوں خواتین کے پردے کے احترام کی وجہ سےہم نے خواتین کو گآڑی میں ہی بیٹھنے کوکہا اور چائے پینے کی غرض سےہوٹل پر جا بیٹھے۔ 

ہوٹل کیا تھا ایک چھوٹا سا چائے کا کھوکھا تھا جس کے سامنے چارپائیوں پر گاؤں کے بزرگ بیٹھے چائے پی رہے تھے اور ٹیپیکل "پینڈو" سٹائیل میں سڑوووووپ سڑووووپ کی آوازوں کے ساتھ چائے پینے اور سرائیکی میں گفتگو میں مصروف تھے۔ اتنے میں ایک لڑکا جو عمر سے13 یا 14 سال کا لگ رہا تھا اخبار اٹھائے گلی سے نمودار ہوا اور ہمارے پاس بیٹھے بزرگوں کے پاس آ رُکا، او میڈھا پوتر آیا، چل میرا پوتر چاچے حنیف کو اخبار پڑھ کے سُنا" بزرگوں میں بیٹھے ایک بزرگ نے لبی تان لگائی، ان کی اس بات کو سُنتے ہی بچے کے چہرے  کا رنگ ماند پڑ گیا۔  نہ چاہتے ہوئے بھی بچے نے ٹوٹی پھوٹی اردو میں اُلٹے سیدھے لفظ پڑھنا شروع کر دیے۔ اور درمیان میں ٹھیٹھ سرائیکی کے الفاظ بھی استعمال کرتا رہا۔ اس کی لڑکھڑاتی زبان سُن کر وہ بزرگ چاچا حنیف بولا۔ تیڈھے پوتر کوں تاں پڑھن دا ول ای نئیں آندا پیا، کیہڑی جماعت وچ اے ؟۔ چاچا حنیف کی اس بات پر وہ بزرگ جو بچے کے آنے پر بہت فخر سے اخبار پڑھنے کو کہہ رہا تھا اور شاید اس بچے کا باپ یا دادا تھا نے نہایت سخت الفاظ میں گالی دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارے ماسٹر صاحب کا حال ہے۔ موٹی تنخواہ لیتے ہیں اور بچوں کو ککھ بھی نہیں پڑھاتے پانچویں کے بچے کا یہ حال ہے۔ 

آؤ دیکھا نہ تاؤ ان کے ساتھ بیٹھے ایک اور شخص نے ان کی ہاں میں ہاں ملائی اور دو چار گالیوں کا اضافہ کرتے ہوئے سکول تعلیم اور اساتذہ کو گالیاں بکنا شروع کردیں۔ بے شک اس معاملے میں استاد قصور وار ہو گا یا نہیں مگر ایک معلم اور استاد کے بیٹے ہونے کی وجہ سے استاد کو گالیاں ملتی دیکھ کر مُجھ سے رہا نہ گیا۔ میں نے اس گفتگو میں کودنے کا فیصلہ کیا ہی تھا بچے کے باپ/دادا نے ہماری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اے این جی او والے وی ڈرامہ ہن تصویراں چھکیندے اپنا مقصد پورا کریندے نکل ویندے ہن، نہ گورنمنٹ کو خیال آندا ہے نہ انہاں کو شرم آندی"

مجھ سے رہا نہ گیا اور نہایت احترام و عزت کے ساتھ ان بزرگ سے ان کا نام پوچھا انہوں نے اپنا نام حیات محمد بتایا اور قریبی گاؤں میں کھیتی باڑی اور بھانے (بھینسوں کا شوروم) چلانے کا بتایا۔ میں نے ان کے کاروبار اور اچھی صحت کی دعا دیتے ہوئے سب کو رسمی سلام کیا اور ان سب سے سوال پوچھا کہ چاچا جی آپ نے اپنے بیٹے کو سکول کب داخل کروایا تھا اور کس نے سکول داخل کروایا تھا۔ جس کے جواب میں انہوں نے بڑے فخر سے کہا کہ میں آپ داخل کروا کے آیا ہامی۔ میرا ان سے اگلا سوال تھا کہ کب داخل کروایا تھا۔ انہوں نے کہا کہ کچی وچ میں آپ ونج کے اکوں داخل کروا آیاں، سکول ساڈے گھر دے نال ای ہے، استاد ہوراں کو کھانا شانا چا پانی وی پلیندے رہ گئے ہاں پر بال دا حال ڈیکھ گھنو ہِک خبر کائ نی پڑھ سکدا۔ تُساں شہر توں آئے ہی وے تے ایں اُستاد دی رپورٹ محکمے کو کرو چا: میں نے سوال کیا کہ کچی میں داخلہ کروانے کے بعد آپ دوبارہ کب سکول گئے ؟ انہوں نے کہا کہ مُڑ ڈُو (2) واری سکول گیاں کوئی فنکشن ہائی۔ این جی او والے آئے ودھے ہن تے اوہناں سارے گاؤں والیاں کو سڈا ہائی۔ 

میں نے خفگی بھرے انداز میں بزرگوار سے کہا کہ آپ نے 5 سال پہلے بچے کو سکول داخل کروایا اس کے بعد سکول جا کر کبھی پوچھا تک نہیں کہ استاد کیا پڑھا رہا ہے یا ہمارے بچے کو سمجھ بھی آرہی ہےکہ نہیں۔ اور سوال کیا کہ کیا آپ نے کبھی بچے کو سکول سے گھر آنے پر سوال کیا کہ کیا پڑھ کر آئے ہو استاد صحیح پڑھا رہا ہے کہ نہیں تو ان کے پاس کوئی دوسرا جواب نہ تھا۔ 

من حیث القوم ہمارا ایک وطیرہ ہے کہ غلط بات یا کام دوسروں پر ڈال دو۔ ہم دوسروں کے معاملات میں بہترین جج اور اپنی غلطی اور معاملات میں بہترین وکیل بن جاتےہیں۔ اگر آپ کسی دیہی علاقے یا کسی شہری آبادی والے سرکاری سکول کا دورہ کریں تو اساتذہ کے منہ سے بھی کچھ اسی قسم کے الزامات نکلتے سنائی دیں گے جن کا ذکر بابا حیات محمد کر رہا تھا فرق صرف اتنا ہو گا کہ ان کے الزامات کا محور والدین ہوتے ہیں۔ 8 سال سرکاری سکولوں میں بچوں کی تعداد اور معیارِ تعلیم کے بہتری پر کام کرنے کے بعد جو کمی مجھے نظر آئی وہ والدین اور سکول و اساتذہ کے درمیانی خلیج ہے۔ 

آپ اپنے بچے کو پرائیویٹ سکول داخل کروائیں اس کے بعد بھول جائیں نہ اس کا فالو اپ کریں تو حالات کچھ بابا حیات کے بیٹے یا پوتے جیسے دکھائی دیں گے۔ والدین بچے کو سکول داخل کروا کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں کہ اب اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو تعلیم دیں۔ اور بڑھتی آبادی کے پیش نظر اور کچھ دیہی علاقوں میں اساتذہ کی کم تعداد بھی ایک وجہ ہے کہ اساتذہ اور بچوں کی مناسب تعداد جو جدید طریقہ ہائے تدریس میں درج کی گئی ہے سے بہت زیادہ ہے۔ جدید طریقہ ہائے تدریس میں ایک استاد زیادہ سے زیادہ 35 سے 40 بچوں کے لیے ضروری ہے۔ مگر دیہی علاقوں کے سکولوں میں ایک استاد کے پاس کم از کم 60 65 بچوں کی تعداد کی کلاس ہوتی ہے۔ 

اساتذہ 5 گھنٹے کے سکول ٹائم میں سلیبس بلیک بورڈ پر چھاپ کر سوچتے ہیں کہ وہ اپنی ذمہ داری پوری کر چکے اور والدین بچوں کو سکول بھیج کر۔ جبکہ دونوں کی ذمہ داری بچے کی تعلیم مکمل ہونے تک نہ کم ہوتی ہے نہ پوری ہوتی ہے۔ سرکاری سکولوں میں ایجوکیشن پالیسی 1972-80 کے تحت 1975 میں ایس ایم سی (سکول مینیجمنٹ کونسل) کے قیام کے باقاعدہ احکامات جاری کیے گئے تھے جس کے بعد تمام پرائمری، ایلیمنٹری اور ہائی سکول بشمول کالجز کے سکول کونسل بنانے کے پابند تھے۔ جس میں چئیرمین سکول کا سربراہ یعنی کے ہیڈ معلم یا پرنسپل ہوتا ہے اور کم از کم ارکان 7 ہوتے ہیں جن میں سے 2 سکول کے اساتذہ اور ایک علاقے کا نمبردار یا بڑا بزرگ اور باقی بچوں کے والدین کو رکھنے کی باقاعدہ سے ہدایات کی گئیں۔ اس پالیسی کے تحت پرائمری کو 30 ہزار روپے، ایلیمنٹری کو 60 ہزار اور ہائی یا ہائر سیکنڈری سکول کو ایک لاکھ کے قریب سالانہ فنڈ سکول کونسل کی مد میں دیا جاتا ہے۔ 

سکول کونسل اس فنڈ باقاعدہ میٹنگز میں سکول کی ضروریات کو دیکھتے ہوئے استعمال کرنے کی مجاز ہے۔ بہت کم لوگ ہیں جو سکول کونسل اور فنڈ کے بارے میں جانتے ہیں اس لیے اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھا۔ فیلڈ ورک کے دوران جو کمی سب سے زیادہ محسوس ہوئی وہ یہ بھی تھی کہ اساتذہ آڈٹ کے خوف سے اس فنڈ کو استعمال ہی نہیں کرتے اور وہ اکاؤنٹ میں پڑا ہی رہ جاتا ہے۔ سکول کونسل کو فعال نہ بنانے کا بڑا نقصان آپ نے اس تحریر کے شروع میں اس بچے کے تعلیمی لیول کی صورت دیکھ لیا ہے ۔ شہر کے پرائیویٹ سکولوں میں Parent Teacher Meeting کارواج ہے اور رزلٹ کے بعد بھی رزلٹ کارڈ پر والدین کے دستخط کہیں نہ کہیں والدین اور اساتذہ کے درمیان حائل خلیج یا دیوار کو توڑ دیتے ہیں اس لیے پرائیویٹ سکولوں کا تعلیمی معیار سب کو سرکاری سکول سے کہیں بہتر نظر آتا ہے۔ جبکہ پرائیویٹ سکول میں اساتذہ کی کم  تنخواہ اور کام کی زیادتی اساتذہ کرام کو صحیح سے ڈیلیور کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ جبکہ سرکاری سکولوں کے اساتذہ کی تنخواہیں مناسب اور کام کی زیادتی بھی نہیں ہے۔ 

میں مانتا ہوں کہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث والدین بچوں سے تعلیمی سوال و جواب یا پوچھ گچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے سے یہ بھی نہ پوچھیں کہ پڑھائی میں دل لگ رہا ہے کہ نہیں یا کوئی مسائل ہیں تو بتاؤ، یہ مسائل ہی جب زبان پر نہیں آتے تو ان کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔ 

سکول کونسل کو فعال بنانے میں پاکستانی فلاحی ادارے "ادارہ تعلیم و آگہی" کا بہت اہم کردار ہے جسے بیلا رضا جمیل جیسی تعلیم اور قوم کا درد رکھنے والی خاتون چلا رہی ہیں۔ +Baela Raza Jamil @ITACEC1 ان کی کاوشیں جنوبی پنجاب سمیت بلوچستان اندرون سندھ اور پختونخواہ میں بہت حد تک سکولوں کی حالت بدلنے میں کار آمد ثابت ہوئیں۔ ان کی رات دن کی محنت اور آگہی مہم سے سکولوں میں سکول کونسل بہت حد تک فعال ہوئیں۔ بیلا رضا جمیل کی بہترین خدمات پر اقوام متحدہ نے اپنے 71ویں اجلاس کے ایجوکیشن سیشن میں انہیں خود دعوت دی کے آکر ایشیا میں تعلیمی صورتحال پر بریفنگ دیں۔ 


سکول کونسل کے بہت سے فوائد ہیں مگر یہاں اس کے ایک فائدے کا ذکر کر کے تحریر کو سمیٹتا ہوں کہ جو سب سے بڑا مسئلہ دیہی سرکاری سکولوں کو درپیش ہے وہ بچوں کی تعداد کے حساب سے اساتذہ کی کم تعداد ہے۔ اور اس مسئلے کو لے کر حکومت کو رگیدا جاتا ہے۔ جبکہ سکول کے پاس اتنے فنڈ اور اختیارات ہوتے ہیں کہ وہ سکول کونسل کی مشاورت سے اپنے علاقے سے ہی ایک پڑھے لکھے استاد کو وہاں تدریس کے لیے رکھ سکتے ہیں۔ جس سے بچوں کی تعداد کو اساتذہ میں مساوی تقسیم کر کے علم کی روشنی ہر بچے تک پہنچائی جا سکے۔ کلاس رومز کے لیے گرمیوں کے موسم میں پنکھے خریدے جا سکتے ہیں۔ لڑکیوں کے سکولوں میں چار دیواری نہ ہونے کی وجہ سے بے پردگی ہوتی اور والدین اسی سبب اپنی بچیوں کو سکول بھیجنے سے گُریز کرتے کہ نہ چار دیواری ہے اور نہ ہی لیٹرین۔ 

تعلیمی پراجیکٹس پر کام کرتے ہوئے ہم نے جتنے سکول دیکھے یا سیلیکٹ کیے ان سب میں سے کوئی ایک سکول بھی نہ سکول کونسل کو فعال کرتا تھا اور نہ ہی سکول کونسل فنڈ کو آڈٹ کے خوف سے استعمال کرتا تھا۔ سکول میں بجلی ہے مگر پنکھے نہیں تو سکول کونسل فنڈ سے خریدنے کی اجازت بھی ہے۔ حکومت پنجاب نے سکولوں میں بُنیادی ضروریات فراہم کرنے کے لیے انتھک محنت کی اور بہت حد تک اس میں کامیابی ملی بھی مگر بُنیادی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ آگہی مہم کی ضرورت ہے الف اعلان کی رپورٹ کے مطابق ابھی بھی لاکھوں کی تعداد میں بچے سکولوں سے باہر ہیں ان کے سکول داخلہ کے لیے جہاں حکومت کو کوششیں کرنی ہیں وہیں اساتذہ کو بھی آگے آنا ہو گا اور اپنےسکول سے ملحق علاقوں میں داخلہ مہم چلانی چاہیے اور اہل علاقہ کو بھی اس مہم میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ جب تک ہم تمام ذمہ داری حکومت اور اساتذہ پر ڈالتے رہیں گے تعلیی صورتحال کبھی بہتر نہ ہوگی۔

غرض یہ کہ ہمارے لیے مسائل کو مل جُل کر حل کرنے سے زیادہ آسان دوسروں پر الزام دھرنا ہے اور وہی ہم نے اپنا وطیرہ اپنایا ہوا ہے، سرکاری سکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے والے کسی بھی والدین کو لے کر ان سے سوال کر لیں وہ آپ کو سکول اساتذہ اور محکمہ تعلیم کو مورد الزام ٹھہراتے نظر آئیں گے۔  اور اس سب کے بعد جو سوال آپ کے ذہن میں اٹھے گا وہ ہو گا "آخر ذمہ داری کس کی ہے ؟

@JawadAsghar4

8 comments:

  1. سوچ رہا ہوں آپ کے یہ الفاظ کسی بورڈ پر لکھ کر اپنے سکول کے باہر لگاؤں۔۔۔۔
    میں مانتا ہوں کہ دیہی علاقوں میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث والدین بچوں سے تعلیمی سوال و جواب یا پوچھ گچھ کرنے سے گریز کرتے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ بچے سے یہ بھی نہ پوچھیں کہ پڑھائی میں دل لگ رہا ہے کہ نہیں یا کوئی مسائل ہیں تو بتاؤ، یہ مسائل ہی جب زبان پر نہیں آتے تو ان کا حل کیسے ممکن ہو سکتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. بہت عمدہ تحریر جواد بهائی
    سرائیکی کا تڑکا بهی خوب تها
    معذرت کے ساتھ دور حاضر میں معالج اور استاد یہ دونوں پیشے پیورلی بزنس بن چکے ہیں.سرکاری سکولوں اور ہسپتالوں کی حالت آپ کے سامنے ہے . گورنمنٹ فنڈ دے کر بری الذمہ ہو جاتی ہے.جیک اینڈ بیلنس اور آگاہی کے وقدان کے ہم سب بشمول گورنمنٹ والدین اور اساتذہ سب زمہ دار ہیں
    اللہ ہم سب اس بارے میں سوچنے سمجھنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
    لکهتے رہئیے اور فیضیاب کرتے رہیئے

    ReplyDelete
  3. جواد بھائی میں خود اسی فیلڈ سے تعلق رکھتی ہوں اس لئیے ان تمام باتوں سے واقف بھی ہوں اور گواہ بھی. تعلیم و تدریس ایک تکون ہر مشتمل ہے اساتذہ, والدین اور طالبعلم. ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی درست کام نا کرے تو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے. آپ کے سوالوں سے متفق ہوں. بحثیتِ استاد میں اپنی ذمہ داری قبول کرتی ہوں اور نبھا بھی رہی لیکن باقی دو اگر ساتھ نہی دیتے میرے تو میری محنت بھی ضائع جاتی. اسی طرح طالبعلم اور والدین محنت کرتے اور میں انکا ساتھ نا دوں تو بھی یہی نتیجہ. سو ذمہ داری ہم سب کی.

    ReplyDelete
  4. بہت زبردست تحریر جواد بھائی
    سرائیکی بھی اچھی لکھ لیتے ہیں ماشاءاللہ
    سب سے بڑی بات کہ سرکاری سکولوں کے تعلیمی نظام میں بہتری کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ ساتھ والدین کی زمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو روزانہ کی بنیاد پر پوچھ گچھ کریں سکول کے اساتذہ سے ملیں اس طرح بچوں کی اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی بھی ہوگی اور بچوں کا تعلیمی معیار بھی بہتر ہوگا

    ReplyDelete
  5. ماشاءاللہ بہت اچھی تحریر ہے جواد بھائی ہر جگہ بہتری کی گنحائش ہے اساتذہ کے ساتھ والدین کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے

    ReplyDelete
  6. بہترین تحریر مشاہدات اور تجربات سے بھرپور

    ReplyDelete
  7. بہترین تحریر مشاہدات اور تجربات سے بھرپور

    ReplyDelete
  8. بہت اچھی تحریر ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کرتی ہوں کہ جب تک والدین بچوں کی پڑھائی میں دلچسبی نہ لیں تب تک بچے بھی اس میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ ہمارے والدین کی دلچسبی ہمارے اندر کچھ کر دکھانے کی لگن پیدا کرتی ہے۔ آپ نے بخوبی ذمہ داران کی کوتاہیوں کا احاطہ کیا ہے۔ میرا خیال ہے دیہی علاقوں میں تعلیم کے فروغ کے لیے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک رکاوٹ مالی بدحالی بھی ہے جس کے باعث بہت سے بچوں کو تعلیم جاری رکھنا اس پہ توجہ دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ تعلیم کا معیار بہتر کرنے کیلیے ہر طبقے کے لوگوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

    ReplyDelete